Wednesday, April 15, 2015

ریاستی مسخرے


پاکستان ایک ایسا عجیب و غریب ملک ہے جہاں متضاد نظریات آسانی سے شادی کر لیتے ہیں۔ فیصل رضا عابدی کے ’جمہوری مارشلا‘ کی اصطلاح سے تو ہم سب واقف ہیں مگر حالیہ دنوں سول سوسائٹی کی تحریک کے بعد میں یہ باآسانی کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان میں ایسی سوچ بھی موجود ہے جسے آپ ’اسلامی سیکولرازم‘ کہہ سکتے ہیں۔ منہ پر جو دل چاہے کہتے رہیں مگر قریب ہر لبرل کے پیٹ میں داڑھی کے کچھ نہ کچھ بال تو ضرور موجود ہیں۔ مسجدوں پردوبارہ اپنا حق حاصل کرنے والوں سے پوچھا جائے کہ اس کے بعدآپ مساجد میں ڈارون کی تھیری پڑھائیں گے کیا؟اچھا اسلام برا اسلام۔۔۔ میرا اسلام تیرا اسلام کی بحث کرنے کے لئے زید حامد اور باقی کم تھے کہ لبرل بھی اس ہی گھنچکر میں پڑ گئے۔آپ ایک آیت امن کی لے آئیں گے تو ملا کئی مکمل جنگوں کے حوالے پیش کر دیں گے۔

ایسا لگتا ہے جیسے مولوی عبدالعزیز اس سے پہلے تو دہشت گردوں پر لعنت بھیجتا رہاہوبس یہ پہلی بار ہے جو اس نے ان کے خلاف بولنے سے انکار کر دیا ہو۔ ریاستی ڈھانچہ اور اس میں کام کرنے والے اداروں کی پالسیوں کو نظرانداز کر کے ہم مولوی عبدالعزیز کے پیچھے ایسے لگ گئے جیسے اس کو حکومت ہٹا ہی دے گی اور اس کے بعد لال مسجد میں کوئی مولوی عبدالعجیب امام نہیں بنے گا بلکہ لال مسجد سرخوں کا ڈیرہ بن جائے گی جہاں ڈاکٹر ہودبائی امامت کے فرائض انجام دیں گے۔ ویسے اگر ایسا ہو بھی گیا تو کچھ ہی عرصہ میں امام ہودبائی صاحب آیت الکرسی سے چلنے والی گاڑی کے حق میں دلائل دیتے نظر آئیں گے کیونکہ اگر ریاستی اور سماجی ڈھانچہ کو بدلے بغیر صرف شخصیات بدلی جائیں تو شخصیات ہی بدل جاتی ہیں ادارے نہیں۔ مگر جو لبرل بھٹو صاحب کے اسلامی سوشلزم کے جھانسے میں آچکے ہوں ان سے کیا توقع کرنا۔

اب یہ لبرل ہر مہینے کی 16 تاریخ کو موم بتیاں جلانے ایسے جمع ہو جاتے ہیں جیسے اس دن سے پہلے یا اس دن کے بعد تو کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہوا ہی نہیں اور پاکستان کے ریاستی اداروں کے حق میں ایسے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں جیسے اسامہ بن لادن ایبٹ آباد سے نہیں دلّی سے برآمد ہوا تھا۔ میرے ساتھ بھی عجیب مسئلہ ہے لوگ کچھ بات کر رہے ہوتے ہیں اور میں اسے کسی اور طرف لے جاتا ہوں۔ جب بھی ٹی وی پر چلنے والے نغمہ ’بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے لڑتا ہے‘ کی آواز کانوں سے ٹکراتی ہے تو میرے سامنے بلوچستان کے بچوں کی تصاویر آجاتی ہیں جبکہ مجھے معلوم ہے کہ لبرل رئیسانی کی طرح بیوقوف تھوڑی ہیں کہ جن کے لئے بچہ بچہ ہو۔ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان میں غدار کی سزا صرف موت ہے چاہے وہ شیرخوار کیوں نہ ہو۔

United Against Terrorism والے اگر ان ریاستی اداروں کے حق میں نعرے لگاتے نظر آئیں گے کہ جو بلوچستان اور سندھ میں ملنے والی مسخ شدہ لاشوں کے ذمہ دار ہیں تو مجھ جیسا نابینا تو غلطی سے انہیں United With Terrorism ہی پڑھے گا۔ Never Forget والے اگر ریاست اور اس کے اداروں کا مذہبی دہشت گردی میں کردار Forget کر جائیں گے تو مجھ جیسا عقل کا اندھااسے Always Forget ہی پڑھے گا۔مجھ بیوقوف کو انہوں نے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ فوج اب بدل چکی ہے مگر میں ہوں کہ ایک عرصہ تک مشرف سمجھاتا رہا تب بھی نہیں سمجھا اور آج ہمارے لبرل دوست سمجھا رہے ہیں تب بھی نہیں سمجھ پا رہا ہوں۔1984 میں جب پیدا ہوا تب سے اب تک کراچی کی سڑکوں پر ریاست کا اتنا پیار دیکھ رہا ہوں مگر پھر بھی کبھی اس کی ممتا کو نہیں سمجھ پایا مگر اب جب کہ لبرل بھی اس ممتا کو سمجھ چکے ہیں مجھے بھی سمجھنا چاہئے۔ 

لبرل برادری کو دوش دینا بالکل ٹھیک نہیں کیونکہ فی الوقت پاکستانی قومی تشخص کے پاس مذہب کے سواقوم کے قیام کے لئے کوئی جواز نہیں اور ہمارے لبرل بحرحال اپنے وطن کی محبت کے جذبہ سے سرشار ہیں اور اپنے سبز ہلالی پرچم کو کالا پیلا ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔ ایسے میں پیٹ میں ایک آدھ بال تو اگ ہی سکتا ہے۔ ویسے بھی بات پریکٹکل ہونی چاہئے پاکستان کوئی سیکولر ریاست تو بن نہیں سکتی اور نہ ہی اس میں خون بہنا رک سکتا ہے لیکن اگر اتنا بھی ہو جائے کہ ریاست یا وہ جن گروہوں کو اجازت دے ان کے علاوہ کوئی تشدد نہ کر پائے تو کیا یہ کم ہے۔ تو کیا ہوا اگر جماعت الدعواۃ جیسی تنظیموں کو سندھ اور بلوچستان کے دیہی علاقوں میں بسا کر نیشنل ازم سے نمٹا جا رہا ہے کم سے کم کراچی اور لاہور کے لبرل اور کنزیومر کلچر کا دفاع کرنے میں تو ریاست سنجیدہ ہے۔

جیسے پاکستان میں جب بھی شیعوں پر حملہ ہوتا ہے تو ریاست آکر یہ کہتی ہے کہ یہ مسلمانوں کے اتحاد پر حملہ ہے ویسے ہی میری اس تحریر کو دہشت گردی کے خلاف بننے والے اس اتحاد پر حملہ تصور کیا جائے گا جس میں فوج سیاستدان لبرل اور تو اور کچھ ریاستی ملّا بھی شامل ہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ اسلامی اتحاد کو توڑنے کے لئے کم سے کم سو ڈیڑھ سو شیعہ ایک وقت میں قتل کرنے پڑتے ہیں مگر ان کا اتحاد ایک تنقیدی تحریر سے بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ پچھلے دنوں لبرل برادری کے کچھ چہیتوں کو ایک ہی تان میں دہشتگردی کے خلاف اور فوجی عدالتوں کے حق میں بات کرنے پر ریاستی مسخرہ کہہ دیاتو سارا وقت محترم شخصیات سے اس وقت دہشت گردی کے خلاف اتحاد کی اہمیت پر لیکچر سن سن کر کان تھک گئے۔ لیکن آپ ہی کہئے اگر کوئی دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑا بھونپو بھی بنا ہو اور ریاستی دہشت گردی کے لئے بننے والے قانون کی طرفداری بھی کر رہا ہو تواسے ریاستی مسخرہ نہیں تو کیا کہا جائے۔

دراصل میں ایک بیوقوف آدمی ہوں اور بلوچستان اور سندھ میں ہونے والی ریاستی دہشت گردی اور تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے ہونے والی دہشت گردی کو الگ الگ نگاہ سے نہیں دیکھ سکتا۔ میں ایک خیالی آدمی ہوں اور پاکستان کے ریاستی اور سماجی ڈھانچہ میں بڑی تبدیلیوں کے بغیر ملا گردی اور انتہاپسندی کے دیو سے نجات ممکن نہیں سمجھتا۔میں زبان دراز ہوں اور جب دہشت گردی میں سعودی فنڈنگ کا تذکرہ کرنے والوں کو پاکستانی ریاستی اداروں کے حق میں نعرے لگاتا دیکھتا ہوں تو طنز کے تیر چلائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں ایک بے حودہ آدمی ہوں جو محض اس لئے ریاستی پرپیگنڈا کے لئے استعمال ہونے والوں کا احترام نہیں کر سکتا کہ انہوں نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے ملا عبدالعزیز کے خلاف مہم چلائی۔ میں ایک منہ پھٹ آدمی ہوں اور جو کوئی بھی دہشت گردی کے خلاف بات کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کی حمایت کرتا ہے اس کو ریاستی مسخرہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا۔

لیکن آپ فکر نہ کریں میں کچھ بھی کہتا رہوں آپ کے پیٹ کی داڑھی کوئی نہیں دیکھ سکتا۔

No comments:

Post a Comment