Monday, April 13, 2015

بلوچ مزاحمت اور اشتراکیوں کا نظریاتی دیوالیہ پن

پاکستان کی صحافی برادری سول سوسائٹی حکومت اور ریاست کے دل میں مزدوروں کے لئے کتنا درد ہے تربت کے واقعے سے پہلے تو مجھے اس کا اندازہ ہی نہیں تھا۔ کچھ دیر کے لئے تو مجھے لگا کہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نہیں بلکہ عوامی جمہوریہ پاکستان میں رہتا ہوں جہاں سب سے مقدم طبقہ مزدوروں کا ہے۔ مگر یہ درد صرف بلوچستان میں ایف سی کے پراجیکٹس کرنے والے مزدوروں کے لئے کیوں جاگتا ہے؟ پی سی ہوٹل کے مزدوروں کی پوری تحریک کے دوران ہم صحافیوں کے آگے ہاتھ جوڑتے رہ گئے مگر مجال ہے جو کوئی اخبار یا چینل اس کا ذکر بھی کرتا۔

واپڈا اور ریلوے کی یونینیں جو کہ پاکستان کی سب سے بڑی یونینیں ہیں نجکاری کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ لاکھوں مزدوروں کو لے کر یہ کئی بار اسلام آباد پہنچیں مگر میڈیا نے اسے کوئی حیثیت نہ دی جبکہ عمران خان کے چند ہزار کو مستقل کوریج دی گئی۔ ریاست نے بھی بالائی طبقات سے تعلق رکھنے والی PTI کو تو اسمبلی میں تور پھوڑ تک مچانے دی مگر مزدوروں کی ریلیوں کو روزانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ 1972 میں کراچی کے مزدوروں پر گولیاں برسانے والے بھٹو کو جمہوریت کا سب سے بڑا مجاہد سمجھنے والی ریاست کے دل میں آج اچانک مزدوروں سے اتنی محبت دیکھ کر میری آنکھوں میں تو آنسو آگئے۔ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ اگر تمام کسانوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے بیٹھ گیا تو کیا ہوابلوچستان میں نشانہ بننے والے مزدوروں کے دکھ میں تو آنسو بہا رہا ہے۔


PTUDC اور پیپلز پارٹی میں بیٹھے مفاد پرست نام نہاد اشتراکی ٹولے نے بھی فوراََبلوچ مزاحمت کاروں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرنے شروع کر دئے۔کوئی ان سے پوچھے کہ صاحب جن کی مسخ شدہ لاشیں روزانہ بلوچستان میں ملتی ہیں کیا وہ مزدور اور کسان نہیں ہیں؟ کیا بلوچستان میں ریاست بے دردی سے جن کو مظالم کا نشانہ بنا رہی ہے وہ سردار جاگیردار اور سرمایہ دارطبقات سے تعلق رکھتے ہیں کہ ان کے خون پر آپ کا خون جوش نہیں مارتا۔یقیناًجواب میں نام نہاد ترقی پسند یہی فرمائیں گے کہ ریاست ان کو مزدور یا کسان کی حیثیت میں نہیں بلکہ بلوچوں کی حیثیت میں نشانہ بناتی ہے۔


گو کہ یہ بات بھی غلط ہے کیونکہ ہمیں ایک طرف ریاستِ پاکستان، بلوچ سردار اور سامراجی کمپنیاں نظر آتی ہیں اور دوسری جانب بلوچستان کے پسے ہوئے طبقات مگر تھوڑی دیر کے لئے اس منطق کو اگر مان لیا جائے تو یہ کون سا اصول ہے کہ جب بلوچ مزدور کسان ریاست کے ہاتھوں مارے جائیں تو ان پر طبقہ کا معاملہ نہ اٹھایا جائے لیکن اگر FWO اور دیگر سامراجی کمپنیوں پر مزاحمت کاروں کے حملہ کے دوران دوسری قوموں کے محنت کش ہلاک ہو جائیں تو انہیں مزدوروں پر حملہ تصور کیا جائے۔


اس ریاست اور اس کے ستونوں کے کھیلوں کا تو مجھے اندازہ ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ خود کو ترقی پسند اور اشتراکی کہنے والے بھی Balancing جیسے بورژوا لبرل طریقہ کو اپنا کر ان کی حلاکت کا ذمہ دار بلوچ مزاحمت کاروں کو ٹھہرانے لگے ہیں۔ تمام سیاسی کارکنوں صحافیوں اور دانشوروں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ بلوچستان اور خاص کر مکران میں ریاست اپنی پوری قوت کے ساتھ آپریشن کر رہی ہے۔یہاں پر جاری تعمیری کام جنگی نوعیت کا ہے جس کا مقصد زمینی فوج کے لئے پکی سڑکیں تیار کرنا ہے تا کہ باآسانی بلوچ مزاحمت کاروں کے ٹھکانوں تک پہنچ کر ان کو نشانہ بنایا جا سکے۔ساری دنیا میں یہ کام فوج خود کرتی ہے کیونکہ یہ ایک جنگی عمل ہے مگر پاکستانی فوج ہمیشہ سے اپنے گناہوں کے لئے پسے ہوئے طبقات کو استعمال کرتی رہی ہے۔

 
ٹھیک اس ہی طرح جیسے پختونخواہ کے قبائلی لشکروں کواسلحہ تھما کر کشمیر اور افغانستان میں اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کی بھینٹ چڑھایا گیاآج مزدوروں کے بیوقوف بنا کر FWO جیسی کمپنیوں کے تحت بلا کر جنگی کاموں میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ فوج کو اچھی طرح علم ہے کہ ان سڑکوں کے کاموں کو روکنے کے لئے مزاحمت کار لازمی sites پر موجود کیمپوں پر حملہ کریں گے اور اگر یہ کام فوج خود انجام دیتی ہے تو ان کو خطرات جھیلنے پڑیں گے۔لہٰذااس بزدل فوج نے اپنی ہی تعمیراتی کمپنیوں کے ذریعے پسے ہوئے طبقات کو تعمیری کام کے نام پر بلا کر اس جنگ کی بھینٹ چڑھا دیا۔


یہ طریقہ کار ایسا ہے کہ جس سے ہر صورت کامیابی فوج کے ہی حصہ میں آتی ہے کیونکہ مزاحمت کار اگر کیمپوں پر حملہ نہیں کرتے ہیں تو باآسانی پکی سڑکیں تیار ہو جائیں گی جن کے ذریعے مزاحمت کاروں کو نشانہ بنانا آسان ہو گا اور اگر حملہ کرتے ہیں تو لازمی اس میں بے گناہ مزدوروں کا خون بہے گا جس سے مزاحمت کاروں کو پوری دنیا کے سامنے دہشت گرد بنا کر پیش کیا جا سکتا ہے۔ تربت میں FWO کے کیمپ پر حملہ سے مظلوم بلوچ قوم اور دیگر علاقوں کے مظلوم طبقات کے درمیان جو تعلقات بننا شروع ہوئے تھے اس کو بڑا دھجکہ لگا ہے مگر اس میں سب سے بڑی ناکامی ان تنظیموں کی ہے جو سرمایہ دارانہ نظام اور سامراج کے خلاف جدوجہد کرنا چاہتی ہیں۔


اشتراکی پارٹیاں فوراََ یہ ثابت کرنے کہ وہ کتنی غیرجانبدار ہیں ’’ظلم چاہے کوئی بھی کرے ظلم ہے‘‘ کے نعرے کے ساتھ حب الوطن پاکستانیوں میں اپنی ساخت بہتر بنانے کی کوشش میں لگ گئیں۔ آج سمجھ آیا کہ آخرکیوں مشرقی پاکستان میں جاری مظالم کے دوران یہاں کے اشتراکی پاکستانی فوج کے ساتھ ساتھ مکتی باہنی کو خونریزی کا برابر ذمہ دار ٹھہراتے تھے۔ پاکستان کے زیادہ تر انقلابی حالیہ یورپی سوشلسٹ ماڈلوں سے بہت متاثر ہیں جہاں ریاست کے لئے تشدد کرنا آسان نہیں ہوتا اور اس ہی لئے مزاحمت کاروں کے لئے جمہوری مزاحمت کرنے کے راستے کھلے ہوتے ہیں۔ مگر تیسری دنیا میں ریاست اور سامراج دونوں ہی بے تحاشہ تشدد کا سہارا لیتے ہیں اور یہاں مغرب کے مہذب اصولوں کے ذریعے مزاحمت صرف سوشل میڈیا پر ہی انقلاب و آزادی سجتی دیکھ سکتی ہے۔


بلوچ قوم پرست بیک وقت کتنے محازوں پر لڑ رہے ہیں اس کا اندازہ اسلام آباد میں بیٹھے انقلابی محض ماما قدیر کی لانگ مارچ میں چند قدم چل کر اور چند بلوچ دانشوروں کی کتابیں پڑھ کر نہیں لگا سکتے۔ بلوچ قوم ابھی تک اپنے ابتدائی مراحل طے کر رہی ہے جہاں آج جا کر انہوں نے اپنے آپ کو اپنے قبائلی ناموں کی جگہ صرف بلوچ کہنا شروع کیا ہے۔ لیکن اس وقت بھی پاکستانی ریاست کی مدد سے سردار ان کے اوپر قابض ہیں اورقبائلی نظام کی دیواریں قوم پرستوں نے ہلا ضرور دی ہیں مگر عمارت ابھی گری نہیں ہے۔ ایک چھوٹی سی قوم سرداروں سامراجی کمپنیوں اور پاکستان، ایران، چین و امریکہ جیسی قوتوں کے عزائم سے لڑ رہی ہے۔ ایسے حالات میں ان سے جمہوری اصولوں کا تقاضا کرنا تو ان کو ظالم کے آگے ہتھیار ڈالنے کی تجویز دینے کے مترادف ہو گا۔


سوال تو یہ ہے کہ آخر بلوچوں کو ہتھیار اٹھانے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ جہاں جمہوری جدوجہد کے راستے کھلے ہوتے ہیں وہاں مزاحمت کبھی ہتھیار نہیں اٹھاتی۔ جب ریاست دھونس دھمکی اور تشدد کے زور پر سامراجی پراجیکٹس کے ذریعے بلوچوں کو ان ہی کی زمین سے بے دخل کر ے گی اور جمہوری جدوجہد کے تمام راستے روک دے گی۔ بلوچوں کی وہ تمام آوازیں جو دنیا تک وہاں کی روداد پہنچا رہی ہوں انکا گلا گھونٹ دے گی۔ UN سمیت قومی اور بین الاقوامی میڈیا کو وہاں جانے کی اجازت نہ دے گی اور ہر جلسہ جلوس اور تحریک کا جواب وہاں کے نوجوانوں کو غائب کرنے کی صورت میں دے گی تو ان کے پاس بھی اپنے حقوق کے لئے سواء اسلحہ اٹھانے کے کیا راستہ رہ جاتا ہے؟


اگر اشتراکی نظریاتی دیوالیہ پن کا شکار نہیں ہوتے تو وہ اس وقت یہ بات کرتے کہ ریاست مظلوم کو مظلوم سے لڑا رہی ہے لیکن اس کو سمجھنے کے لئے میڈیا رپورٹس سے آگے نکل کر زمینی حقائق پر نظر ڈالنی پڑتی۔۔۔ اس ترددِ بیجا میں کون پڑے۔ کسی نے FWOکے کارناموں پر نظر ڈالنے کی زحمت نہیں کی کہ جس کے کیمپ پر حملہ ہوا تھااور جیسے ہی حملہ ہوا بیانات داغنے شروع کر دئے۔ نہ کوئی یہ سوال کرتا نظر آتا ہے کہ جہاں پر ہر میڈیا کے ادارے اور ہر سماجی اور انسانی حقوق کی تنظیم کو سیکیورٹی رسک کے بہانے جانے کی اجازت نہیں دی جاتی وہاں بے چارے مزدور طبقے کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھانے کیوں لے کر گئے۔


مزدوروں کے قتل پر افسوس ہونا چاہئے مگر ساتھ ساتھ یہ بتا نا بھی لازمی ہے کہ ان حملوں کا نشانہ مزدور نہیں تھے بلکہ FWO کے جنگی عزائم تھے اور بیچارے مزدوروں کو ریاست نے پیادوں کی طرح اپنی شطرنج بنانے کے لئے استعمال کر لیا۔ میں بھی بلوچ مزاحمت کاروں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ کوشش کریں کہ ریاست سے جنگ کے دوران ان مظلوم طبقات کو نشانہ بننے سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں لیکن دوسری طرف مزدوروں سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ سامراجی سازشوں کا پیادہ نہ بنیں اور بلوچستان کی ان کمپنیوں سے دور رہیں جو مظلوم قوموں کا ہی نہیں ان کا بھی استحصال کر رہی ہیں۔مجھے معلوم ہے کہ یہ دونوں کام مشکل ہیں مگر مظلوم طبقات اور مظلوم قوموں میں اتفاق دونوں کی جدوجہد کو مزید مظبوط بنا سکتا ہے اور اشتراکیوں کا فرض یہی ہے کہ ان کو ملانے کی کوشش کریں۔

 
پاکستان کے اشتراکی چونکہ ایک عرصہ تک واقعتا سامراج یا ریاست کے خلاف کسی منظم جدوجہد کا حصہ نہیں رہے اس لئے بورژوا لبرل اصولوں پاکستانی میڈیا اور کتابی باتوں کے ذریعے بھرپور انداز میں اس پورے واقعے کی تشریح فرما رہے ہیں اور زمین پر موجود مزاحمت کاروں کو ایسے مشورے دے رہے ہیں جیسے پہلی دنیا کے لوگ تیسری دنیا والوں کو اور شہری آبادی کے لوگ دیہی آبادی کو دیتے ہیں۔مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ سکون سے اپنے گھروں پر بیٹھ کر کتابی باتیں کرنا بہت آسان ہے لیکن جب ریاست آپ کو مٹانے کے درپے ہو تو بہت سے کتابی اصول بے وزن ہو جاتے ہیں۔


میری خواہش یہی ہے کہ ایسے واقعات نہ ہوں لیکن میں اس کے نتیجہ میں ریاست اور مزاحمت کاروں کو ایک صف میں نہیں کھڑا کر سکتا اور اپنے تجزیوں کو اس حد سے آگے نہیں لے جاسکتا کہ جہاں سے آگے صرف وہی دیکھ سکتا ہو جو اس جگہ کھڑا ہو۔ ہاں میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ریاست چاہتی ہے کہ مظلوم طبقات کو مظلوم قوموں سے لڑوا دیا جائے اور ترقی پسندبھی اس سازش کو ناکام بنانے کے بجائے اس کو تقویت دے رہے ہیں۔ہم اشتراکیوں کا یہ فرض ہے کہ مزدوروں کو آگاہ کریں کہ بلوچ مزاحمت کاروں اور ان کا دشمن ایک ہی ہے اور غیر شعوری طور پر اس دشمن کا پیادہ بننے سے بچائیں۔


مگر اشتراکیوں کے نظریاتی دیوالیہ پن کا کیا کیجئے!

6 comments:

  1. آپکا تجزیہ بجا ہے مگر اس بات سے توآپ بھی اختلاف نھیں کرینگے کہ مزاحمت کاروں کی طرف سے کی جانے والی ایسی کاروایوں سے بلوچ تحریک کو فایدہ نھیں البتہ نقصان بہت زیادہ ہوتا یے جیسا کہ آپ خود بھی محسوس کر رہے ہونگے۔ایسے وقت میں جب تحریک کو مقامی اور ملکی سطح پر عموعی حمایت اور پزیرای کی زرورت ہے ایسی کاروایاں ظالم کے جبر کو جواز فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ تحریک کے بنیادی خد و خال پے بھی سوالوں اور خدشات کو جنم دے رہی ہیں جو کہ حقیقتا ایک افسوسناک پہلو ہے۔

    ReplyDelete
  2. غیر حقیقی،حقائق اور واقعات سے لاعلمی سے بھرپور ادھور اور یک رخہ تجزیہ ہے جس میں تجزیہ نگاری کی بجائے تعصب اور مخصوص ہدف پر حملہ کرنا مقصود ہے۔۔ پی ٹی یو ڈی سی نے اپنے ہر مظاہرے میں یہ نعرہ لگایا کہ "یہ جو دہشت گردی ہے ۔۔۔اس کے پیچھے وردی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم نے ایک ہی فقرے میں مسخ شدہ لاشوں اور مزدوروں کے قتل عام کو ایک ہی سکے کے دورخ قراردیا۔ہم نے ریاست اور ریاستی جبر،قومی حقوق کی سلبی،تلفی اور استحصال کو واضع کیا اور ان حملوں کو قومی حقوق کی جدوجہد کے منافی قراردیا۔ہم نے ہر مظاہرے میں ان بے گناہ معصوم اور کم عمر مزدوروں کے قتل عمد، کیوں کہ اس حملے میں ایف سی کے اہلکاروں کو چھیڑا تک نہیں گیا اور سوئے ہوئے کم سن مزدوروں کو اٹھا کر انکی آنکھوں اور سر میں گولیاں ماری گئیں، کی شدید مذمت کی کیوں کہ یہ حملہ ایف سی ،آرمی،رینجر یا آئی ایس آئی پر نہیں تھا مزدوروں پر تھا،کیوںکہ مزدوروں کے ٹھیکے دار نے بلوچ رجمنٹ کو کافی عرصہ سے بھتہ دینا چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنی فضول بات اور احمقانہ تجزیہ ہے کہ پاکستان کی جابر فوج کو کسی سڑک کی ضرورت ہے مذاحمت کاروں سے نمٹنے کے لئے،گویا ان کے پاس ہیلی کاپٹر،جہاز،ڈرون اور طاقت تو ہے ہی نہیں۔۔۔۔۔ڈاکٹراللہ یار کو دودفعہ گرفتار کر کے چھوڑدیا گیا،کیوں؟؟؟؟؟؟ کیا فورسز کو نہیں پتا کہ یہ قاتل اور دھشت گرد ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اگر وہ قوم پرست اور حریت پسند ہوتا تو مسخ شدہ لاش کسی ویرانےمیں پھینک دی جاتی۔۔۔۔۔یہ نام نہاد سرمچار اور مزاحمت کار امریکی سی آئی اے اور سعودی عرب کی ایجنٹی کررہے ہیں۔۔۔۔ جو جند اللہ اور لشکر جھنگوی کے اتحادی ہیں۔ کیا قوم پرستی ہے جو طالبان پیدا کرنے والی تنظیموں کے چھایہ تلے پنپ بڑھ رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے ہر مظاہرے،مضمون اور تقریر میں فوج کو اس قتل عام کا ذمہ دار قراردیا ہے۔ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ بلوچ قوم پرستی کے نام پر افواج پاکستان کے کارندے قتل وغارت گری کرکے مزید قتل عام کی راہ تلاش کررہے ہیں جس کی تصدیق اس بڑَے آپریشن کی بازگشت سے مل رہی ہے جو تربت میں کئے گئے قتل عام کے بعد شروع کیا جارہا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ہمارا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ انفرادی دھشت گردی ریاست کو مزید خونخوار کرتی ہے۔جب تک مظلوم قوم کے محنت کش ظالم قوم اور دیگر قوموں کے محنت کشوں سے جڑت نہیں پیدا کرتی استحصالی اور حکمران طبقات کے خلاف حتہ کہ قومی حقوق کی جدوجہد کو بھی آگے نہیں بڑھایا جاسکتا ۔ جن معصوم بچوں کو مارا گیا ہے ان کا کیا قصور تھا؟؟؟ فوج کو کیوں نہیں مارا گیا؟ سندھی بولنے والے معصوم بچوں کی آنکھوں میں گولیاں مارنا ثابت کرتا ہے کہ قاتل دولت اسلامی۔طالبان اور القائدہ کو تربیت دینے والوں کے ہی شاگرد ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس قتل وغارت گری کے جواز میں یہ مجہول اور فضول تحریر کا کیا مقصد ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟ قوم پرستی اب عقل وخرد سے عاری،تعصب وبغض میں اندھی ہوکر ایسی کھائی میں گر گئی ہے جہاں سے اس کا نکلنا محال ہے۔۔۔ اگر یہ قتل عام فوج کو تقویت دینےکے لئے کیا گیا ہے جیسا کہ {مجہول تجزیہ نگار نے ثابت کیا ہے} تواسکے ذمہ دار پیشہ ور اور اجرتی قاتل ہیں مزدوروں کے خون ناحق پر آنسو بہانے والے مارکسسٹ نہیں

    ReplyDelete
  3. http://ptudc.org/in-urdu-mainmenu-41/752-tasvar-qesrani.html

    ReplyDelete
  4. http://ptudc.org/in-urdu-mainmenu-41/751-avinash.html



    پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کی جانب سے مورخہ 12 اپریل 2015 کو تربت میں 20 سے زائد محنت کشوں کے قتل عام کے خلاف حیدرآباد پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ، جس میں شہر کے مخلتف علاقوں سے نوجوانوں، ٹریڈ یونین رہنماؤں اور محنت کشوں نے شرکت کی ۔hyd_protest_killing_workers اس موقعے پر رہنماؤں نے خطاب کرتے ہوئے پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے صوبائی صدر کامریڈ انور پنہور ، پیرا میڈیکل اسٹاف یونین کے جنرل سیکریٹری کامریڈ پرشوتم ، گورنمنٹ سیکنڈری اسکول ٹیچرز ایسوسی ایشن حیدرآباد کے صدر ضمیر احمد خان اور راہول نے کہا کہ بلوچستان میں مزدوروں کا قتل عام کھلی بربریت ہے بلوچ لبریشن فرنٹ کی جانب سے اس قسم کی کاروائیاں بلوچ عوام کے حقوق کے لئے نہیں ہیں بلکہ انکے مخصوص آقاؤں کے لئے ہیں، ہم بلوچوں کے قومی حقوق کا احترام کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہیں معاشی استحصال کا خاتمہ کرکے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے ، دوسری قومیتوں کے مزدوروں کا قتل عام ناقابل معافی جرم ہے جسکی پر زورمذمت کرنی چاہیے ، ہم محنت کشوں کو ایک دوسرےکے ساتھ یکجہتی کرنی ہوگی تاکہ تمام تر مسائل کو حل کیا جاسکے۔ بلوچستان میں یہ قتل عام طبقاتی یکجہتی کو ختم کرنے اور محنت کش طبقے کو تقسیم کرنے کی سازش ہے۔ رہنماؤں نے محنت کشوں کےورثا سے دلی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے یہ عزم کیا کہ محنت کشوں کی بین القوامی جڑت کو مضبوط کرتے ہوئے یہاں سے ہر قسم کے قومی اور طبقاتی استحصال کا خاتمہ کیا جائے گا۔

    ReplyDelete
  5. http://ptudc.org/in-urdu-mainmenu-41/750-jahanzeeb-babar.html

    صادق آباد( جہانزیب بابر)پاکستان ٹریڈیونین ڈیفنس کمپئین کے زیر اہتمام پریس کلب صادق آباد کے سامنے بلوچستان میں بیس مزدوروں کے قتل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔مظاہرے میں پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے مرکزی جنرل سیکریٹری قمرالزماں خاں،ریجنل سیکریٹری حیدر چغتائی،فاطمہ فرٹیلائیزر کمپنی لیبر یونین کے صدربابر،ایمپلائیز یونین فوجی فرٹیلائیزر کمپنی کے مشتاق احمد،رہڑی یونین کے صدر محمد شریف ،انقلابی رکشہ یونین کے صدر ندیم بٹ،مولوی غفور،شبیر احمد،گلستان ٹیکسٹائل ملز بہاولپورکے جلیل منگلہ،پیپلز یوتھ ونگ ضلع رحیم یارخاں کے صدر خاور باجوہ،معروف انقلابی کارکن لالوبٹ سمیت متعدد مزدورتنظیموں کے راہنماؤں اور کارکنوں نے شرکت کی۔مB2ظاہرین نے بلوچستان میں مزدورں کے قتل عام کے خلاف بینرز اٹھائے ہوئے تھے اور مزدوروں کے قاتلوں کی گرفتاری اور انکو قرارواقعی سزا دینے ،بلوچستان،پنجاب اور وفاقی حکومت کے مستعفی ہونے،حفاظت پر مامورایجنسیوں کی غفلت اور بلوچستان میں پراکسی جنگ لڑنے والے نام نہاد دوست ممالک کے خلاف نعرے بازی کی۔ مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ بلوچستان میں مزدوروں کا قتل عام بلوچ قومی تحریک کو کمزور بنانے کی ایک سازش ہے۔غریبوں کے بچوں کو مارکر تنگ نظر قوم پرست پاگل پن کا ثبوت دے رہے ہیں۔زیادہ قرائن یہ ہیں کہ بلوچستان لبریشن فرنٹ امریکی اور سعودی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے اجرتی قاتلوں کا کردار ادا کررہے ہے۔چینی اور امریکی سامراج کی لوٹ کھسوٹ کی لڑائی میں مزدوروں کا قتل عام ثابت کرتا ہے کہ نہ صرف ریاست اپنی رٹ کو حکمران طبقے کے مفادات کے لئے استعمال کررہی ہے دوسری طرف طبقاتی یکجہتی کو ختم کرنے کے لئے سرائیکی،پنجابی،سندھی مزدوروں کو شناخت کرکے قتل کیا جارہا ہے۔مقررین نے کہا کہ کوئی مزدور شوق سے اپنے گھر اور خاندان کو تڑپتا چھوڑ کر ہزاروں میل دور اپنی محنت بیچنے نہیں جاتا بلکہ بے روزگاری،غربت اور افلاس اس کو یہ قدم اٹھانے پر مجبور کرتا ہے،مزدوروں کا بلوچستان میں قتل عام بلوچ قوم پرستوں اور انکے غیر ملکی آقاؤں کی بذدلی اور سیاسی دیوالیہ پن کا اظہار ہے جو کہ قابل نفرت اور قابل مذمت ہے۔پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کے راہنماؤں نے کہا کہ ہر واقعے میں صرف مزدوروں کا قتل اور اموات ثابت کرتی ہیں کہ یہاں طبقاتی بنیادوں پر مصالحت یا مفاہمت ناممکن ہے۔ایک طبقہ اور اسکے ایجنٹ محنت کش طبقے کو موت کی طرف دھکیلتے جارہے ہیں جبکہ محنت کش طبقے کو اپنی صفیں درست کرکے سرمایہ داری نظام اور تعصبات پر پنپنے والے نظریات کو جڑ سے اکھاڑ نا ہوگا۔سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ماضی کے تعصبات اور بربریت کا خاتمہ کی جاسکتا ہے۔مقررین نے ضلعی انتظامیہ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ شہید مزدوروں کی معیتوں کو رات کے اندھیرے میں چوروں کی طرح پنوعاقل لانے اور انکے گھروں میں پہنچانے سے ثابت ہوتا ہے کہ محنت کشوں اور مظلوموں کے ممکنا ردعمل پر حکمران طبقے پر کتنا لرزا طاری ہے۔اب نہیں تو آنے والے دنوں میں اس ظالمانہ نظام اور اس کے رکھوالوں کا نیست ونابود ہونا لازم ہے ورنہ اس ظلم واستحصال کے نظام میں محنت کشوں کا جینا المناک اور مرنا اندوھناک ہی رہے گا۔پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کی اپیل پر آج پاکستان بھر میں مظاہرے ہورہے ہیں جن کو یوم مئی تک جاری رکھا جائے گا۔

    ReplyDelete
  6. http://ptudc.org/in-urdu-mainmenu-41/749-ptudc.html
    تربت میں مزدوروں کے قتل کے خلاف دادو میں احتجاجdadu_protest_about_killing_2
    (رپورٹ: کامریڈضیاء)

    تربت بلوچستان میں بیس مزدورجن کا تعلق سندہ اور پنجاب سے تھا کو نیند کی حالت میں بڑی بے رحمی سے قتل کیا گیا ، ایسے انسان دشمن عمل کے خلاف پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین دادو کی جانب سے پریس کلب دادو کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں متعدد ٹریڈ یونینز کے کارکنان ، رہنما اور نوجوان شریک تھے۔ مظاہرہ کو کامریڈ خالد جمالی صدر بیروزگار نوجوان تحریک دادو، اعجاز بگھیو ، محمد موریل پنہور صدر پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین دادو، صدام خاصخیلی پروگریسو یوتھ الائینس کی جانب سے خطاب کیا اور کہا کہ مزدوروں کی قومی بنیادوں پر قتل عام مزدور طبقے کے قوموں سے بالا تر اتحاد کو توڑنے کی ایک سازش قرار دیا تاکہ بلوچستان میں جاری حقیقی طبقاتی لڑائی کی حمایت کو ایک صوبے تک مقید کیا جاسکے اور اسے دیگر صوبوں میں کوئی حمایت نہ مل سکے۔ ایسی تdadu_protest_about_killing_2_copyنظیمیں جو مزدوروں کو قتل کرتی ہیں وہ ہرگز بلوچ عوام اور مزدور طبقے کی خیرخواہ نہیں ہو سکتی بلکہ وہ ریاستی اور سامراجی ایجنڈے کے تحت اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ایسے واقعے کی بھرپور لفظوں میں مذمت کی۔

    ReplyDelete