Thursday, March 17, 2016

پیغمبرِ محبت زاہد بلوچ

May 02, 2014


مظلوم خواہ پنجابی کیوں نہ ہو ہم اُس کے لئے آواز اٹھانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ہماری سیاست کی بنیاد نفرت نہیں محبت پر ہے‘۔یہ الفاظ جو کچھ برس قبل واجہ زاہد بلوچ نے اپنی گفتگو کے دوران ادا کئے آج تک میرے کانوں میں گونجتے ہیں۔ میں نے سیاست کے دوران کئی نامور اور قدآور شخصیات سے ملاقات کی ہے مگر ایسے لوگ شاز و نادر ہی دیکھے کہ جن کی سیاست کی بنیاد محبت پر ہو اور جو غصہ کی جگہ تحقیق اور منطق پر اپنے فیصلے لیتے ہوں۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ شخص بلوچ نوجوانوں میں محبتوں کا ایسا رس گھول دے گا کہ نفرتوں کے پجاری ہر بلوچ نوجوان کو اپنے لئے خطرہ تصور کرنے لگیں گے اور بالآخر محبت کے پیغمبر کو صلیب کی زینت بنانے کے درپے ہو جائیں گے۔

بلوچ خان کی آواز میں ایک سحر تھا اور جذبات چشمہ کی طرح شفاف تھے۔ اس نے گفتگو کے دوران مبالغہ آرائی سے قطعاً کام نہ لیا اور اپنی خوبیوں سے زیادہ خامیوں کا ذکر کیا۔نیشنلزم سوشلزم بھارت میں ماوسٹوں کی تحریک کُردوں کی تحریک غرض یہ کہ تمام دنیا کی سیاست پر نہ صرف مفصل بحث کی بلکہ اس کے بارے میں ابہام سے پاک تبصرہ بھی کیا۔ میرے لئے حیران کن بات یہ تھی کہ سامراج کے حوالے سے شاید ہی کسی مارکسی لیڈر کا اتنا زبردست تجزیہ ہو جیسا کہ بلوچ خان کاتھا۔ وہ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ بلوچستان کی آزادی کی جنگ بلوچ اپنے ہی بل پر لڑ رہے ہیں اور صرف اپنے ہی بل پر جیتی جا سکتی ہے۔ خطے میں دیگر مظلوم قوموں و قومیتوں اور طبقات کی تحریکیں اس کے لئے مثبت ضرور ہو سکتی ہیں مگر سامراجی ممالک بلوچستان کے لئے منفی تو ثابت ہو سکتے ہیں مثبت ہر گز نہیں۔
اگر آج میں تھوڑا بہت بھی بلوچستان کے مسئلہ کو سمجھ رہا ہوں تو اس میں بلوچ خان کا بہت اہم کردار ہے۔ اُن کو اس بات کا بھی بہت افسوس تھا کہ پاکستان کا بائیاں بازو نہ صرف بلوچستان کے مسئلہ کو سمجھنے سے قاصر ہے بلکہ پاکستان کے ریاستی ڈھانچہ کا بھی صحیح تجزیہ نہیں کر پایا جس سے میں بھی کافی حد تک متفق ہوں۔بلوچ دانشوروں اور طالب علموں کا قتلِ عام ہو یا ان کی درس گاہوں کو تباہ کرنے کا سلسلہ ہو یا ان کی کتابوں کو جلانے کی کوششیں میرے لئے یہ سب کسی دھجکہ کا باعث نہ تھا کیونکہ گفتگو کے دوران جب میں نے واجہ سے پوچھا کہ ہم آپ کی کس طرح مدد کر سکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہمیں بس لٹریچر چاہئے۔عام لوگوں کی طرح میرا بھی یہی تاثر تھا کہ بلوچ بندوق کے ذریعے آزادی حاصل کرنے کے خواہاں ہیں مگر اس گفتگو کے ذریعے مجھے پتہ چلا کہ وہ پہاڑوں میں نہیں جانا چاہتے۔ وہ تو جمہوری انداز میں سیاسی جنگ لڑنا چاہتے ہیں اور وہ اپنا اصل ہتھیار شعور و آگہی کو سمجھتے ہیں۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ مہذب انداز میں اس مسئلہ کو حل کیا جائے اور بلوچستان کی عوام کے فیصلہ کا احترام کیا جائے مگر۔۔۔
آپ ہی بتائیے ایسے ہزاروں اشخاص کو غائب کر کے کیا ریاست یہ پیغام نہیں دے رہی کہ وہ انہیں یونیورسٹیوں کالجوں محلوں اور گھروں کے بجائے پہاڑوں میں بھیجنا چاہتی ہے۔وہ جانتی ہے کہ بلوچ کیا چاہتے ہیں مگر وہ اس آواز کو ان کے لبوں پر برداشت نہیں کر سکتی۔ وہ اس آواز کو پہاڑوں میں دبا کر یہ سمجھتی ہے کہ اس کی گونج دنیا تک نہیں پہنچ سکے گی۔ وہ اس مسئلہ کا حل جمہوری انداز میں نہیں دیکھنا چاہتی بلکہ اپنے ظلم و بربریت اور عسکری قوت کے غرور میں یہ سمجھتی ہے کہ خون کی ندیاں بہا کر وہ بلوچوں کو ان کے جمہوری حق سے محروم کر سکتی ہے۔ لگتا ہے وہ بھول گئی ہے کہ کس طرح یہیٰ خان اور بھٹو کا غرور جنرل نیازی کی وردی اترنے کی صورت میں ٹوٹا تھا۔
تجھ سے پہلے جو شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی خدا ہونے کا اتنا ہی یقیں تھا
حبیب جالبؔ 
آج بی ایس او آزاد کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو لگے دس دن ہو چکے ہیں۔ کل رات بہادر جوہر سے ملاقات ہوئی تو اس کے جسم کو ڈھلتا ضرور پایا مگر اس کا حوصلہ روز مزید جوان ہوتا دیکھ رہا ہوں۔میں چاہتا ہوں کہ یہ دلکش نوجوان اپنی زندگی نہ گنوائے کہ اس ریاست میں بسنے والے لوگ اندھے بہرے اور گونگے ہیں اور میری اطلاع کے مطابق میڈیا کو سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ اس ہڑتال پر زیادہ بات نہ کی جائے۔ مگر کیا کروں کہ اس کی مسکراہٹ مجھ سے روز یہی کہتی ہے کہ وہ امید کی ایک ایسی کرن ہے جو ظلم کے اس ا ندھیرے کو چیر کے رکھ دے گی اور محبت کے پیغمبر کو نفرت کے شکنجے سے آزاد کرا کے دم لے گی کہ واقعی
سورما فتنہِ باطل کو مٹا دیتے ہیں
خون دہکے ہوئے زرّوں کو پلا دیتے ہیں