Wednesday, April 19, 2017

Lynched by the state

A week ago, I was following a debate whether or not blasphemy law and subsequent mob justice is a reaction to Islamophobia and US Imperial wars, when a friend sent me the video of Mardan university student Mashal Khan’s lynching.

He was ‘punished’ by the self-proclaimed defenders of religion over a blasphemy allegation. Silence of the concerned authorities tells that the mob only followed into their (authorities) footsteps. Getting them rid of one more enlightened dissenting voice!

The state born from the womb of colonial masters, who like any other imperial power had no support in the masses is controlling the society through its might. To save themselves from any reaction, its institutions nurtured extremist organizations, groups and militias to fight any opposition. From jihadi to splinter political groups like MQM-H, rulers have developed a culture where people can take law in their hands, provided they are acting in favor of the Masters.

In some areas, where strong political organizations do not let these vigilantes ‘serve justice’, the system itself acts above the law. This could be gauged by the rising number of enforced disappearances in Sindh and Balochistan.

Furthermore there are police officers considered encounter specialists who have mastered the art of extrajudicial killings and arrests. These tactics may not be intended to promote mob culture but definitely encourage incidents like the one we witnessed in Mardan.

The justifications of blasphemy and treason provided over enforced disappearances of the four bloggers from Punjab, have wreaked more havoc than the act of disappearing them itself. After the abductions, powerful institutions faced a lot of criticism, from both inside and outside the country.
A few media anchors and journalists running the loyalty marathon put every ounce of their energy to take this narrative to a level where things were bound to get out of hands.

Things further aggravated by Chaudhry Nisar - the Interior Minister who vanishes after every terrorist attack, but comes into limelight with one after another controversial statement, policy, action or inaction.

The time when the heat of fictitious allegations of blasphemy was burning and actions were required to cool things down, he started a witch hunt against every dissenting voice on social media in the name of blasphemy.

The arrests of Ayaz Nizami and others, not because of they acted violently or incited anyone to violence, but only because of the views they expressed on social media has brought upon us the darkest period of our society. And in this dark night looming over Pakistan, walls of intolerance are getting ever higher and guarding it are blood-thirsty packs of wolves, chasing down every sane voice in a jail that this country has become.

I do not have the courage to watch how one such pack chased, tore and mangled Mashal with the teeth provided by this state, but I acknowledge that I am afraid.

Afraid of the banned Jammat Ud Dawaa’s seminary near my house – which unlike MQM’s 90 functions and expands with each passing day - because I do not know when would a mob emerge from there and serve its verdict upon me.

I am afraid of every patrolman I see on my way to work, because I do not know if they are standing to protect me, or the masters from my views. I am afraid of every person who stands near my house because I do not know how these ‘angels’ disappear activists.

Yet, I am writing! Again. Because it is better to fight the fear than to live it. I am sure the others would be protesting as well and the voices instead of diminishing would get louder with each horrific event. But I am also convinced that more ferociousness would be unleashed to silence these voices.
Those in power have learned no other method but intimidation to deal with disagreement and is only intensifying its tactics of violence.

However, what the state is unable to take into account is the spiral of conflict also growing with the intensity of each layer of its viciousness. It is also unable to see that using its might is taking the society towards chaos and anarchy, with which it will be unable to deal in the coming future.
What they have failed to comprehend is that the masses follow the same laws, rules, morals and values established by the class ruling them. They fail to understand how there tactics are not exclusive to them but also to the people who lynched Mashal inside the university.

The mob who killed Mashal was under the influence of the same narrative that was developed as a justification for the enforced disappearances of the bloggers. The brutality used by them reminds one of the similar approach exercised by the establishment and its puppets. I do not know the people who attacked Mashal but he was murdered by the very people claiming to be fighting terrorism.

Tuesday, April 11, 2017

پاک سر زمین اور عالمی سازش

علی منطق

ہدایات: طنز و مزاح کے امراض کی علامات برقرار رہیں تو نفسیاتی ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔ تمام تحریریں نعیم الحق و پی ٹی آئی کی پہنچ سے دور رکھیں۔

شہزادہ کراچی جناب مصطفی کمال صاحب جس گھڑی عرب امارات کی مقدس سرزمین کو چھوڑ کر کراچی کی مظلوم عوام کے نجات دہندہ بن کر دفاعی محلہ کے عالیشان بنگلہ میں وارد ہوئے تو کراچی کی عوام کو اندازہ ہوگیا کہ ان کا چاند سا مئیر جو گہنا کر گیا تھا اب قلعی کرا کر لوٹا ہے تو یقینا اس شہر کی قسمت بدلنے والی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ملک ریاض نے کراچی کو ریکنڈیشن مصطفی کمال کی صورت میں بحریہ ٹاءون سے بھی بڑا تحفہ عنایت کیا ہے کہ اس کے کمال سے تو پورا کراچی بحریہ ٹاءون بن جائے گا اور بحریہ ٹاءون کے ایک اشتہار میں گڈاپ کے ایک بلوچ مزدور کے شامل کئے گئے الفاظ ہم سب دہرائیں گے کہ ہم یہاں رہ نہیں سکتے تو کیا ہوا چائے وائے تو بیچ سکیں گے۔ گھر کی روزی روٹی تو چلے گی۔
لیکن میرے نادان ذہن میں اچانک خیال آیا کہ مصطفی کمال کی "چٹ کرزمین پارٹی" میں تو کراچی کی وہ نامور شخصیات موجود ہیں کہ جن کے ذکر کے بغیر نہ تو چائنا کٹنگ جیسے نئے فن کا تذکرہ ہو سکتا ہے نہ بلدیہ فیکٹری جیسی آگ اور بھتہ کے کاروبار کی بلندیوں کا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان اعلی حضرات نے جس کمال فن سے حضرت اورنگ زیب فاروقی کے ساتھ مل کر کراچی کے حسینیوں میں مظلومیت بیدار کی ہے اس کی مثال تو اورنگ زیب کے بعد بس اورنگ زیب کی ہی ہے۔ اب چائنا کٹنگ کے فن سے وابستہ ان افراد کا ملک صاحب جیسے ایماندار انسان سے کیا میل ہو سکتا ہے جو پوری ایمانداری سے یہ داستان سناتے ہیں کہ کس لگن سے انہوں نے پاکستان میں رشوت کے اسٹکچر کو سمجھا اور زمین کے کاروبار کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچایا۔
مجھے ملک صاحب اور مصطفی کمال سمیت ان تمام افراد کی قابلیت پر کوئی شبہ نہیں مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عالمی سازشی ٹولے نے ان سادہ دلوں کو بہلا پھسلا کر پھانس لیا ہے۔ آپ سب لو گوں کو یہ تو معلوم ہی ہے کہ پاکستان کائنات کا واحد ملک ہے جس سے دنیا اور اس سے زیادہ اس میں پھیلا کفر ڈرتا ہے لہذا پہلے روز سے پاکستان عالمی سازش کی زد میں ہے۔ اگر میری بات پر یقین نہ آئے تو جا کر دیکھئے کہ پاک فوج کا سپاہی کس کسم پرسی کی حالت میں زندگی بسر کرتا ہے مگر عالمی سازشی ٹولے نے اس ہی فوج کے نام پر نہ جانے کتنی زمینیں ہڑپ کر رکھی ہیں اور کتنے کاروبار کھول رکھے ہیں۔ اگر ہماری فوج کے پاس اتنا پیسہ ہوتا تو وہ کبھی ان سپاہیوں کو ایسی زندگی بسر نہ کرنے دیتی مگر برطانیہ نے جاتے وقت سوچی سمجھی سازش کے تحت ایسے قوانین وضع کر دئے کہ جس سے جرنیل ہزاروں کنال لینے پر مجبور ہو گئے اور بے چارے سپاہیوں کے لئے گھر بنانا مشکل رہا۔
اس ہی عالمی سازشی ٹولے نے متقی و پرہیزگار جرنیل یحی خان کو شراب نوشی کی عادت میں لگا کر ان کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے ایسے فیصلہ کرائے کہ پاکستان کو دولخت ہونا پڑا اور آج پھر وہ پاک سر زمین کے پیچھے پڑ گیا ہے۔ میرا ماننا یہ ہے کہ اس میں را اور موساد کے ساتھ ساتھ ایف بی آئی اور ایرانی انقلابی گارڈ بھی شامل ہیں اور ان کا ہدف صرف اور صرف پاک فوج ہے۔ انہوں نے ہمارے بھولے جرنیل مشرف بہ اسلام کو نہ صرف Enlightenment اور Moderation کے چنگل میں پھنسایا بلکہ غربت ختم کرنے کے لئے ڈالر بھیجنے کا جھانسہ دے کر ایسے افراد کو اغوا کروانے میں استعمال کیا جن کو ہمارے سیدھے سادھے جرنیل یہودی سمجھ رہے تھے مگر بعد میں پتہ چلا کہ وہ کچھ زیادہ ہی مسلمان تھے۔ حالیہ دنوں میں یہ سازشی ٹولہ کمال مہارت سے اپنے تربیت یافتہ بلاگرز کو غائب کر کے اعلی کورس کرانے ہندوستان لے گیا اور الزام ہماری معصوم ایجنسیوں پر رکھ دیا جو سولین سرولینس کی اس قدر خلاف ہیں کہ ان کی اکیڈمی کے برابر میں اسامہ بن لادن کا گھر تھا مگر ان کو شبہ بھی نہ ہوا۔
کافی عرصہ سے یہ ٹولہ بلوچستان کے نوجوانوں کو اغوا کر کے ان کی مسخ شدہ لاشوں پر پاکستان زندہ باد لکھ کر پھینک رہا ہے اور اب اس نے سندھ بالخصوص کراچی کا بھی رخ کرلیا ہے۔ سامراج جب کسی جگہ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے وہاں کے اتحاد کو پارا پارا کرتا ہے جس کے لئے انگریزی کا مقولہ Divide and Rule ایجاد ہوا۔ ۱۹۷۲ میں سازشی عناسر نے اردو سندھی خلیج پیدا کی اور ۸۰ کی دہائی میں مستقل مہاجر پٹھان اور شیعہ سننی جھگڑے کرائے تاکہ ہماری فوج بارڈر چھوڑ کر شہروں کے دھکے کھانے پر مجبور ہو جائے۔ ۹۲ میں اس ٹولے نے حقیقی تخلیق کر دی جس سے کراچی مورچوں میں تبدیل ہو گیا اور یوں افواج پاکستان یہاں مستقل رہنے پر مجبور ہو گئیں۔ ابھی اس سے سنبھلے نہیں تھے کہ سازشی ٹولے نے مذہبی دہشت گردی شروع کرا دی اور الزام دھر دیا مجاہد بچہ جرنیل حمید گل پر کہ انہوں نے طالبان بنائی۔
آپ خود سوچئے کہ ایک فوج جس کے سپاہی سے لے کر جرنیل تک کا خواب یہ ہو کہ وہ اپنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرے اس کے لئے اس سے زیادہ تکلیف دہ کیا ہو گا کہ اسے شہروں میں بیٹھ کر پلاٹوں، بلاکوں اور پانی کے ہائدرنٹس تک کے کاروبار کرنے پڑیں۔ جب آرمی بحریہ اور فضائیہ کے نام پر ہاءوسنگ سوسائٹیاں بنتی ہوں گی تو ان مجاہدین کے دل پر کیسے تیر چلتے ہوں گے؟ کاش اس کا احساس بلڈی سولین کر پاتے۔
مگر بے چاری فوج کی آزمائشیں کہاں ختم ہونے والی ہیں اب 'چٹ کر زمین پارٹی' کی صورت میں ایک نئی آزمائش سامنے ہے۔
'چٹ کر زمین پارٹی' کی unquestionable حب الوطنی کی وجہ سے جو کہ پاکستان میں انتہائی نایاب ہے بلڈی سولین یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ مسیحا جو صرف ان کی وجہ سے اپنی آسائشیں چھوڑ کر کراچی آئے ہیں وہ فوج کے قریب ہیں۔ جبکہ زمین کے اتنے سارے ماہرین کو اکھٹا کرنے سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان بیچارے لوگوں کو جن کو ساری زندگی یہ پتہ نہ چل پایا کہ ان کا لیڈر را کا یجنٹ ہے بہلا پھسلا کر کچھ ایسے لوگ لے کر آئے ہیں جو کراچی کی زمین ہتھیانا چاہتے ہیں۔ اور اس بات سے کون آشنا نہیں کہ پاک فوج دنیا کا وہ آخری ادارہ ہو گا کہ جسے زمین کی ضرورت ہو۔ دوسری جانب کراچی کے لوگوں کو عالمی سازشی ادارے اغوا کر کے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں اور مصطفی کمال کی پارٹی کو Hijack کرنے کی غرض سے اس میں شامل کر رہے ہیں۔ مگر کس کو بدنام کیا جا رہا ہے؟ پھر بے چاری فوج کو کہ جس کے پروفیشنلزم اور سیاست سے دوری کی مثالیں پارلیمان میں بیٹھا ایک ایک شخص دینے پر مجبور ہے۔
ایک تو را کا ایجنٹ الطاف حسین پہلے ہی موجود تھا جس نے اپنی supernatural طاقت سے معصوم مشرف کو hypnotize کر رکھا تھا۔ اب جو سازشی ٹولہ نجات دہندہ مصطفی کمال کو بھی بیوقوف بنا کر لے آیا ہے تو خون کی ہولی بھی ہو گی اور کراچی کے لوگ بھی مزید تقسیم ہوں گے۔ مگر یہ سب تو مہرے ہیں عوام کی آزمائش تو یہ ہے کہ وہ اس ملک دشمن ٹولے کو پہچانے جو ان کے خون پر اپنی عمارتیں قائم کرنے کے درپے ہے۔